نظرانداز کرکٹرز کو امید کی کرن دکھائی دینے لگی، بڑی خبر آگئی

نظرانداز کرکٹرز کو امید کی کرن دکھائی دینے لگی، بڑی خبر آگئی


لاہور: (ویب ڈیسک) نظراندازکرکٹرزکو امید کی کرن دکھائی دینے لگی جب کہ نئے چیف سلیکٹر نے سب کیلیے آپشن کھلا رکھنے کا عندیہ دے دیا۔ پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹwww.cricketpakistan.com.pk کو انٹرویو میں ہارون رشید نے کہا کہ میں پہلے بھی نہ صرف سینئر بلکہ جونیئر سطح پر بھی چیف سلیکٹر کے طور پر

کافی عرصے کام کرچکا ہوں،حال ہی میں عبوری سلیکشن کمیٹی کا کنوینئر بھی رہا،اب یہ اہم ذمہ داری ملی تو پوری دیانتداری کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کروں گا،اس سوال پر کہ 70 سال کی عمر میں یہ ذمہ داری نبھانا مشکل تو نہیں ہوگا؟ انھوں نے کہا کہ میں ایک اسپورٹسمین کے طور پر کوشش تو کرتا ہوں مگر یہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ فٹنس اور صحت بہت اچھی ہے، تجربے کے ساتھ کام میں مہارت بھی آجاتی ہے،نجم سیٹھی پہلے بھی آئے تو انھوں نے اہم ذمہ داریاں میرے سپرد کی تھیں، اب بھی وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس پوسٹ کا اہل ہوں۔ شعیب ملک جیسے سینئرز کو سلیکشن کیلیے زیرغور لانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ موجودہ حالات میں کون سے پلیئرز ٹیم میں شامل ہو سکتے ہیں، یہ بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ ایسے کھلاڑی پاکستان کیلیے کسی بڑے ایونٹ میں ایسا کردار ادا کر سکتے ہیں جس سے ٹیم کی فتح کے امکانات زیادہ ہو جائیں،اگر کوئی نوجوان کرکٹر بھی سینئر جیسی پرفارمنس دینے کا اہل ہے تو بڑا سوچ سمجھ کر دونوں کا جائزہ لینا پڑتا ہے،ابھی تک سب کیلیے آپشن کھلا رکھا ہوا ہے، سلیکشن کمیٹی بن جائے تو ایک پالیسی بناکر منظوری لیں گے، پھر اسی پر عمل درآمد ہوگا۔ محمد عامر کی واپسی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ پلیئرز کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئیں، بعض اوقات ایک بیان بہت زیادہ تنازعات کی وجہ بن جاتا ہے،انھیں اپنی کرکٹ پر توجہ دینا چاہیے، سب خود کو اچھا کھلاڑی سمجھتے اور سوچتے ہیں کہ ان کو 11 یا 16 میں شامل ہونا چاہیے، مگر سلیکشن کا انحصار مخصوص کنڈیشنز میں ٹیم کی ضرورت پر ہوتا ہے، عامر بھی اچھا کھیلیں تو ٹیم میں واپس آسکتے ہیں۔تینوں فارمیٹ کیلیے الگ ٹیموں کے سوال پر انھوں نے کہا کہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس پلیئرز کا پول کتنا ہے، اگر آپشن محدود تو اسی کے مطابق فیصلے کرنا پڑتے ہیں، موجودہ رجحان کے مطابق کئی ٹیمیں ہر فارمیٹ کے اسپیشلسٹ پلیئرز منتخب کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں، اگر ان کے پاس ٹی ٹوئنٹی کے زیادہ کھلاڑی ہیں تو انھیں ہی شامل کرلیا جاتا ہے،ٹیسٹ کرکٹ کیلیے دیگر کی سلیکشن ہوتی ہے،60 فیصد تک ٹیمیں اسپیشلسٹ پلیئرز کی ہوتی ہیں،ڈومیسٹک کرکٹ پر میری نظر رہی ہے۔ ہارون رشید نے کہا کہ پاکستان کے پاس موجود پلیئرز پول پر توجہ دینا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ سے بھی فرق پڑتا ہے، کسی کو بھی ڈراپ کرنے سے قبل بھرپور مواقع فراہم کرنا چاہیے، ملک میں بیشتر 21 سے 27سال کے کرکٹرز کی اچھی کھیپ کا میسر ہونا خوش آئند ہے، یہ پختہ کار ہوکر اعلی معیار کے پرفارمرز کے طور پر طویل عرصے پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں،اس سے قومی ٹیم کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔ پرانے ڈومیسٹک اسٹرکچر کی بحالی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ پہلا کام تو یہ ہے کہ ریجنز سے نمائندے منتخب ہوکر اوپر آئیں، ڈپارٹمنٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے،وہ دلچسپی بھی لے رہے ہیں، ان کی ٹیمیں بنیں گی، دونوں کے 4،4 نمائندے گورننگ بورڈ کا حصہ بن جائیں گے، 2 نمائندے پیٹرن کے نامزد کردہ ہوں گے، گورننگ بورڈ بن جائے تو فیصلہ ہوگا کہ سسٹم کو کس طرح چلانا ہے، کیا ڈپارٹمنٹس کا الگ ٹورنامنٹ بہتر ہو گا یہ بھی دیکھنا پڑے گا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *