: اگر مذاق میں نکاح کیا جائے

مفتی منیب الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: اگر مذاق میں نکاح کیا جائے اور گواہ بھی موجود ہوں اور اُنہیں بھی معلوم ہو کہ یہ مذاق ہے تو کیا اس صورت میں نکاح منعقد ہوجائے گا اور اگر مذاق میں نکاح کیا اور گواہ نہ ہوں تو اس کی بابت شرعی حکم کیا ہوگا؟ (ابن بشیر احمد )جواب: نکاح کے صحیح طور پر منعقد ہونے کے لیے رکنِ نکاح ایجاب وقبول کے موقع پر مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ہونا شرط( ضروری) ہے، خواہ لڑکا اور لڑکی براہِ راست ایجاب وقبول کریں یا بذریعۂ وکیل ، اگر وکیل کے ذریعے ایجاب وقبول ہو تو اس امر کے ثبوت کے طور پر کہ لڑکی نے ایک مقررہ مہر پر اس لڑکے ساتھ اس وکیل کو اپنے نکاح کا اختیار دیا ہے، الگ سے دوگواہوں کا ہونا بہتر ہے، نکاح کے وقت دوگواہوں کی موجودگی ضروری ہونے کی بابت احادیث ، آثارِ صحابہ اورفقہاء کے اقوال درج ذیل ہیں:’’ لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِشُہُوْدٍ‘‘ (گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا) اس کی بابت احادیث بھی ہیں اور آثارِ صحابہ بھی ہیں :(۱) ترجمہ:’’حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی اور دوگواہوں کے بغیر نکاح (صحیح طور پر) منعقد نہیں ہوتا اور جو اس کے بغیر ہو، وہ باطل ہے ،(صحیح ابن حبان:4075)‘‘۔(۲)ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی اور دوگواہوں کے بغیر نکاح (صحیح طور پر) منعقد نہیں ہوتا ،(سُنن دار قطنی:3531)‘‘۔(۳) حضرت علی ؓ کا قول ہے : ترجمہ:’’ ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا اور گواہوں کے بغیر بھی نکاح منعقد نہیں ہوتا ،(اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلبَیْہَقِی:13645)‘‘۔(۴) گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ، امام ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت کیا: ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے صحیح روایت میں مروی ہے:’’گواہوں کے بغیر نکاح جائز نہیں ،(سُنن ترمذی ، جلد2، ص:185)‘‘ ۔امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام احمد بن حنبل ؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک نکاح کے صحیح طور پر منعقد ہونے کے لیے دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔

گواہوں کے بغیر نکاح پر وعید آئی ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: ’’بدکار عورتیں وہ ہیں جو بغیر گواہوں کے اپنا نکاح کرتی ہیں، (سنن ترمذی: 1103)‘‘۔

مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کے سامنے اگر ایجاب وقبول کیا ، خواہ مذاق میں ہویا سنجیدگی سے ،دونوں صورتوں میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے، حدیث ِ پاک میں ہے: ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین کام ایسے ہیں، خواہ سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق میں، منعقد ہوجاتے ہیں: نکاح،طلاق اور رجعت،(سُنن ترمذی:1184)‘‘۔شیخ الاسلام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکر الفرغانی مُتوفّٰی593ھ لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ (جب تک مجلسِ نکاح میں) دو آزاد، عاقل اور بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں موجود نہ ہوں ، مسلمانوں کا نکاح(شرعی طور) پر منعقد ہی نہیں ہوتا، خواہ وہ گواہ عادل ہوں یا غیر عادل یا محدود فی القذف (جن پر حدّ قذف لگی ہو)ہوں‘‘، اس کی شرح میں علامہ کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ نکاح کے صحیح طور پر منعقد ہونے کے لئے فقہائے کرام نے دو گواہوں کی موجودگی کو جو شرط قرار دیا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے ثابت ہے:’’(غیر کفو میں) ولی کی اجازت کے بغیر اور (اسی طرح) دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا، (فتح القدیرمع ہدایہ، جلد:3،ص:190,191، مطبوعہ:مرکزاہلسنت برکات رضا )‘‘۔علامہ کمال الدین ابن ہمام مُتوفّٰی861ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مذاق میں بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے ، اس کے لازم ہونے پر دلیل رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک: ’’تین کام خواہ سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق میں ،منعقد ہوجاتے ہیں: نکاح ، طلاق اور رجعت ‘‘،امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا،(فتح القدیر ، جلد 3،ص:196)‘‘۔علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی مُتوفّٰی970ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اگر گواہوں کے بغیر نکاح کیا ،پھر گواہوں کو خبر کی حیثیت سے (نکاح ہونا) بتایا، یہ نکاح جائز نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ ان گواہوں کے سامنے دوبارہ نکاح کرے ،(البحرالرائق ،جلد3،ص:94)‘‘۔ امام احمد رضا قادری سے سوال کیا گیا: ’’ اگر عورت مرد باہم ایجاب و قبول کرلیں اور کسی کو اطلاع نہ ہو تو کیا یہ نکاح ہوجائے گا؟‘‘، آپ نے جواب میں لکھا :’’ دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح فاسد ہے، (فتاویٰ رضویہ ، جلد:11،ص:219)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ گواہوں کے بغیر نکاح درست نہیں اور جو نکاح گواہوں کے بغیر ہوا وہ فاسد ہے، اگر کوئی مرد وعورت گواہوں کے بغیر نکاح کرکے ساتھ رہنے لگیں تو اُن پر لازم ہے کہ فوری علیحدگی اختیار کریں، توبہ کریں اور شرعی اور صحیح طریقے پر نکاح کرکے ساتھ رہیں۔

غرض شریعت نے نکاح کے لیے دو گواہوں کی شرط اس لیے رکھی ہے کہ نکاح کا اعلان ہو اور لوگوں کو پتا چلے کہ ان دونوں کے درمیان میاں بیوی کا رشتہ ہے، کوئی ان کے کردار پر انگلی نہ اٹھائے ، حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:علی بن حسینؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ مسجد میں تھے اور آپ کی ازواجِ مطہرات ؓ آپ کے پاس تھیں ،وہ جانے لگیں تو آپ نے حضرت صفیہؓ سے فرمایا:تم جلدی نہ کرو ، میں تمھیں رخصت کرنے چلتا ہوں اور ان کا حجرہ حضرت اسامہؓ کی حویلی میں تھا۔

پھر نبی کریم ﷺ حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ نکلے، پس آپ سے انصار کے دو آدمی ملے ، انھوں نے نبی کریم ﷺ کی طرف دیکھاپھر گزر گئے،نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: تم دونوں یہاں آؤ،یہ صفیہ بنت حُیَیٍّ ؓ ہیں ،دونوں نے عرض کیا : سبحان اللہ !یارسول اللہ ﷺ (یعنی آپ کی ذات کے بارے میں مومن کسی بدگمانی کاتصور بھی نہیں کرسکتا

آپﷺ نے فرمایا: شیطان (اپنے اثرات کے اعتبار سے) اس طرح سرایت کرتا ہے، جیسے خون رگوں میں گردش کرتا ہے ، مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ تمہارے دل میں کوئی چیز ( بد گمانی) ڈال دے گا، (صحیح بخاری : 2038)‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ مومن کے لیے اپنی پاکدامنی اور عزت نفس کا تحفظ ضروری ہے۔

چونکہ نکاح حلال وحرام کا مسئلہ ہے، اس لیے اس میں ابتذال (نشانۂ مذاق بنانے)کی گنجائش نہیں ہے، اسے مذاق کا موضوع نہیں بنایاجاسکتا، اس طرح تو لوگ طلاق دیں گے اور پھر کہیں گے : ’’میں نے تو مذاق کیا تھا‘‘، پھر کونسا آلہ ہے، جس کے ذریعے مذاق(ھَزْل) اور سنجیدگی (جِدّ) میں فرق کیا جائے گا، لہٰذا اس کی بابت شریعت کا اصول قائم رہے گا۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’عورتوں (کے حقوق ) کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ تم نے اُنھیں اللہ کی (طرف سے عائد کردہ) امانت میں لیا ہے اور (حِلّتِ نکاح کے بارے میں) اللہ کے کلمے (حکم) کے سبب ان سے ازدواجی تعلقات تمہارے لیے حلال ہوتے ہیں،(سُنن ابن ماجہ: 3074) ‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ دو گواہوں کے سامنے مذاق میں بھی ایجاب وقبول ہوا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اگر گواہوں کی شرط ختم کردی جائے، تو زنا کار مرد اور عورتیں جب بھی گرفت میں آئیں ، توکہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو نکاح کرلیاتھا ، نیز طلاق دے کر اسے بھی مذاق قرار دیاجاسکتا ہے، اس طرح تو حلال وحرام کا فرق ہی مٹ جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *